یوں تو ہم عام انسان انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کا رتبہ حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں مگر رب پاک نے کچھ نیک کام کرنے والوں کو اپنے خاص اور بہترین بندوں میں شامل فرمایا ہے جس میں ایک ہے علم کا دوسروں تک پہنچانا جوکہ نبیوں کا پیشہ رہا ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ’’ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو علم سیکھیں اور سکھائیں ‘‘مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ آج کے دور کے استاذہ کی اکثریت علم صدقہ جاریہ سمجھ کر ناں تو سیکھتے ہیں اور ناں ہی سکھاتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ کام صرف دنیا اور دولت کمانے کے لیے کیا جاتا ہے اور جو کچھ نصاب کی کتابوں میں لکھا ہوتاہے صرف وہی طوطے کی طرح رٹوا کر پیپرز دلوا دیئے جاتے ہیں اور خود کوبری الذمہ سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ اساتذہ کو روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے یعنی کہ روح کو سنوارنے والے‘ انہیں چاہیے کہ بچے کی روح کی بھی تربیت کریں اسے جھوٹ،حسد، بعض سے نفرت دلائیں‘ سچ بولنے کی ترغیب دیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں میں حسد کی بیماری اتنی عام ہے کہ بچے اگر کوئی اچھی چیز جیسے بیگ، جیومیٹری یا پین وغیرہ سکول لے کر جاتے ہیں تو بڑائی ظاہر کرنے کے لیے اپنے دوستوں سے جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ چیز تو امریکہ یا لندن سے آئی ہے اور دوسرے بچے مزید جھوٹ بولتے ہیں کہ ہاں ہمارے پاس بھی پچھلے سال بالکل ایسی ہی تھی ہم تم سے پہلے ہی یہ چیز استعمال کرچکے ہیں اگر بچوں کو گاہے بگاہے لیکچرز دیئے جائیں کہ جھوٹ بولنا کتنی بُری بات ہے اور سچ کا سر ہمیشہ اونچا ہوتا ہے تو یقیناً وہ ایسی باتیں کرنے سے پہلے ضرور بچنے کی کوشش کریں گے اور بچپن کی عادات ہی آہستہ آہستہ پختہ ہو جاتی ہیں۔ایک استاد تو وہ تھے کہ اگر کوئی طالب علم چھٹی کرتا تو خیریت دریافت کرنے اس کے گھر پہنچ جایا کرتے تھے مگر آج کے استاد ان کو کسی کی طبیعت سے کوئی غرض ہی نہیں۔ چھوٹی سی غلطی پر بچوں کو گھنٹوں تک کھڑا رکھا جاتا ہے دوسرے بچوں کے سامنے ان کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ بچے کی شخصیت بنانے کی بجائے اسے نفسیاتی مریض بنادیا جاتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ بچے کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آئے بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو سب بچوں کے سامنے اس کی تعریف کی جائے اس کی ہمت بندھائی جائے تاکہ اسے دیکھا دیکھی دوسرے بچے بھی اچھے کام کریں۔ بچوں کو اتنا نہ ڈرا دھمکادیں کہ وہ سزا سے بچنے کیلئے جھوٹ کاسہارا لیں بلکہ پیار اور نرمی سے بات کریں کہ اگر کسی بچے سے غلطی ہو بھی گئی ہو تو اس کے مان لینے پر اسے سزا دینے کی بجائے نرمی سے بھی سمجھایا جاسکتا ہے کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہ کرے اور اگر ضروری ہوتو مناسب سزادینی چاہیے اتنی کہ اسے جھوٹ نہ بولنا پڑے بلکہ سچ کو ترجیح دے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کریں نماز پڑھنے والے بچوں کو شاباش دیں‘ اسلامیات کی کلاس میں باقاعدہ پوچھیں کہ کل کس کس بچے نے نماز پڑھی آپ کی وجہ سے نمازی بننے والے بچے آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتے ہیں۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بہت ضروری ہے اکثر بچے ڈاکٹر اور انجینئرز تو بن جاتے ہیں لیکن دینی معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ کسی بھی ایک دن کوئی ایک پریڈ ایسا رکھیں کہ جس میں اسلامی معلومات پر لیکچر دیں تاکہ انہیں دین و اسلام کی سمجھ بھی آئے اور وہ دنیاوی تقاضوں کیساتھ ساتھ دینی تقاضے بھی پورے کرسکیں اور جن روحانی بیماریوں کا شکار یہ معاشرہ ہورہا ہے ان سے بچ سکیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں